وڈھ میں جنگ کے خاتمے کے لیے پاٸیدار سیاسی و قبائلی حل کی ضرورت اب بھی موجود..تحریر احمدمینگل
وڈھ میں جنگ کے خاتمے کے لیے پائیدار سیاسی و قبائلی حل کی ضرورت اب بھی موجود
تحریر : میر احمد مینگل وڈھ
ثالثین کی فارمیلٹی (رسمی انداز ) کے طور پر آنا اور انکی مسلسل ناکامی،
فریقین کے درمیان حکومتی و سیاسی سطح پر رسہ کشی اور علاقے میں جوابی صف بندیاں جاری،
مرکزی و صوبائی حکومت کا منظر عام سے غائب ہوجانا،
زگر مینگل قلات کے معتبرین سے ثالثی کی درخواست،
وڈھ اور ایک ' کمزور جنگ بندی'،
وڈھ کی صورتحال انتہائی غیرمستحکم ہے۔ اور اس صورتحال کا جاری رہنا انسانیت اور منطق کے خلاف ہے۔ دور حاضر میں جن ممالک میں جنگ جاری ہے، یاختم ہوئی ہے۔ وہاں کی صورتحال دیکھ کر تباہ کاریوں کا اندازہ لگانا مشکل ثابت ہوتا ہے۔ شام، یمن، عراق اور افغانستان کی صورتحال ہمارے سامنے ہیں ۔ان ملکوں میں جانی، مالی و معاشی نقصان اتنا زیادہ ہوا کہ اس سے مکمل طور پر باہر نکلنے کے لیے شاید انہیں نصف صدی درکار ہوگی۔
*یَقِیناً* جنگ ایک مکمل تباہی کا نام ہے۔ جنگ مینگل قوم کی بدقسمتی کی داستان بن سکتی ہے۔ مگر یہ تاریخ میں قَطْعاً دانشمندانہ فیصلہ خیال نہیں کیا جائے گا ۔جنگ ہم ہر روز محض ایک ’لفظ‘ کے طور پر سنتے اور بولتے ہیں حقیقت میں کتنی بھیانک ہوتی ہے۔ اس کا ہمیں حقیقی معنوں میں علم نہیں،
یہاں جنگ سے اجتناب کی بات اس لیے نہیں کی جارہی کہ ہمیں دونوں اطراف مینگل قوم کی صلاحیتوں پر شبہ ہے بلکہ اُس انسانی المیے کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جارہی ہے جو جنگ کے نتیجے میں دونوں طرف نقصانات پیدا کرینگی۔
مینگل قبائل کو قوموں اور ملکوں کی ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے، اس بات کا ادارک کرنا چاہیے کہ جنگوں نے کسی قوم کو فائدہ نہیں پہنچایا اور اس کا نتیجہ محض تباہی کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔
لہذا میر شفیق الرحمن مینگل اور سردار اختر جان مینگل سے ہاتھ جوڑ کر گزارش ہیکہ ماضی کے بدترین باب کو بند کرکے فرضی نفرت بھول کر آپس میں دونوں فریقین ایک دوسرے سے حقیقی پائیدار تعلقات قائم کرنے کی کوشش کریں اور مینگل قوم کی مستقبل کی فکر و سوچ کی طرف گامزن ہوجائیں ۔
ثالثین دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوے۔ مکمل تیاری کے ساتھ، سابقہ ثالثین کی خامیاں و کمزوریاں دیکھتے ہوے صلح کے عمدہ تقاضوں پر اتر کے فریقین کی آپس میں لگی برسوں سے غم و غصہ کی آگ، طویل المیعاد نفرت، کو مد نظر رکھ کر ٹھنڈے، دلجوئی، شائستگی، بردبلا اور اعلی ظرف کے ساتھ مزاكرات خوش اسلوبی کے ساتھ بڑھا کر مسلے کی حل کی طرف لیکر جائیں۔
مزید محترم ثالثین سے گزارش ہے۔ کہ وقت نکال کے آجائیں اور بات چیت کو اس مقام تک لے کر جائیں جہاں فریقین اپنی ڈیمانڈز میں اونچ نیچ کرنے پر راضی ہوجائیں، جب تک دونوں اطراف کچھ مان نہیں لیا جاتا ظاہِراً مورچے نہیں ہٹ جائیں گے اور صورتحال ایسی ہی برقرار رہے گی، ہم سابقہ ثالثیں کی کوشیشوں کو سرہاتے ہے اور مزید گزارش کرتے ہے ۔ زگر مینگل قلات کے معززین آجائیں اپنی براداری کو جانی نقصان سے بچا نے میں کردار ادا کریں ۔
کہتے ہیں۔ ریاست ماں کی حیثیت رکھتی ہے ، عوام کے جان ، مال ، عزت کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ لیکن ریاست وڈ ھ میں کسی بھی ممکنہ خطر ے کے پیش نظر کوئی خاص اقدامات کرتے ہوے دکھائی نہیں دے رہی ۔اور سوتیلی ماں جیسی رویہ اختیار کی ہوئی ہے۔ ہم حکومت وقت سے داد فریاد کرتے ہیں۔ مینگل اقوام کے درمیان بغیر طاقت کے استعمال کے جنگ بندی کرادیں۔ اور اس جنگی بحران کو ختم کرنے کے لیے مربوط سیاسی مفاہمت کا راستہ اختیار کر کے مسئلے کو حل کریں ۔
حالیہ دنوں قلات میں زگر مینگل اقوام کے درمیان جرگہ منعقد کیا گیا تھا وڈھ کے کشیدہ صورت حال پر جو کہ خوش آئندہ بات ہے ہم چاھتے ہیں چیف آف زگر سردار محمد اسحاق خان مینگل ،چیف آف نوزئی سردار عبد المجید مینگل، سردار علی اکبر مینگل،میر کوہی خان مینگل، میر جنگی خان مینگل و دیگر مینگل سربراہان وڈھ تشریف لائے ۔ اپنی مینگل برادری میں خیر خوا ہی کر کے جانی نقصان سے بچانے میں کردار ادا کریں۔
Comments
Post a Comment